News Online

Please Join me on G+ wncjhang@gmail.com and Subscribe me on Youtube. allinone funandtech....... THANK YOU FOR VISITING MY BLOG AND MY CHANNEL

ٹیکس کی معلومات شریف برادران

90 کی دہائی میں شریف خاندان کے ٹیکس ادا کرنے والے افراد کی تعداد11 ہوا کرتی تھی جن میں میاں شریف، مسز شمیم اختر (ماں اور باپ)، نوازشریف، کلثوم نواز، حسین نواز، حسن نواز، شہبازشریف، نصرف شہباز، حمزہ شہباز، عباس شریف (مرحوم) اور مسز صبیحہ عباس شامل تھی۔

ان 11 افراد کے ڈیکلئیرڈ کردہ اثاثوں میں مندرجہ ذیل فیکٹریاں شامل تھیں:

چوہدری شوگر ملز، رمضان شوگر ملز، مہران رمضان ٹیکسٹائل ملز، محمد بخش ٹیکسٹائل ملز، حمزہ سپننگ ملز، حدیبیہ پیپر ملز، حدیبیہ انجینئرنگ لمٹڈ، حمزہ بورڈ ملز، کلثوم ٹیکسٹائل ملز، اتفاق برادرز، الیاس انٹرپرائزز، برادرز سٹیل لمٹڈ، اتفاق شوگر ملز، خالد سراج ٹیکسٹائل انڈسٹریز، رمضان بخش ٹیکسٹائل ملز، اتفاق ٹیکسٹائل ملز، برادر ٹیکسٹائل ملز، اتفاق فاؤنڈریز، خالد سراج انڈسٹریز، برکت ٹیکسٹائل ملز، عبدالعزیز ٹیکسٹائل ملز، برادر شوگر ملز اور ایفیکٹو پرائیویٹ لمٹڈ۔

اب زرا دل تھام کر پڑھیں۔

محکمہ ریوینیو  کے 1998 کے  سرکاری ریکارڈ کے مطابق 30 جون 1998 تک نوازشریف کے ذمے صفر ٹیکس واجب الادا تھا کیونکہ اس وقت تک اس کے ٹوٹل اثاثہ جات کی مالیت 21 لاکھ اور ان پر قرضے کی رقم 64 لاکھ تھی جس کی وجہ سے وہ خسارے میں تھا اور اس پر کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہوتا تھا۔

کچھ ایسی ہی بے چارگی بیگم کلثوم نواز کے ساتھ بھی درپیش تھی۔ کلثوم نواز کے کل اثاثہ جات 39 لاکھ 80 ہزار کے تھے جبکہ خاتون پر قرضوں کی رقم 39 لاکھ 50 ہزار تھی، پیچھے بچنے والے 30 ہزار انکم پر کلثوم نواز نے 8 ہزار روپے ٹیکس ادا کرکے حاتم طائی کی قبر کو لات مار دی۔

شہباز شریف کی حالت اس سے بھی پتلی تھی۔ 30 جون 1998 کو فائل کی گئی ٹیکس ریٹرن کے مطابق شہباز شریف 45 لاکھ کے خسارے میں تھا۔ تاہم اس نے اچھے وقتوں میں چوہدری شوگر مل کے 5000 شئیر خرید رکھے تھے جن پر حاصل ہونے والے منافع پر اس نے پورے ایک ہزار روپے ٹیکس ادا کردیا۔

ان دنوں بھائیوں کے والد میاں شریف کی مالی حالت کچھ بہتر تھی اور اس نے 50 ہزار ایک سو دو روپے کا ٹیکس ادا کرکے شہیدوں میں نام لکھوا دیا۔ یہی نہیں، ہزاروں ایکڑ اراضی کی ملکیت ہونے کی وجہ سے ویلتھ ٹیکس کی مد میں ایک لاکھ 96 ہزار روپے بھی ادا کئے۔

میاں شریف کی بیگم اور نواز شہباز کی والدہ کے پاس 18 ہزار ایکٹر سے زائد قابل کاشت زرعی اراضی تھی جس پر محترمہ نے پورے ایک لاکھ 31 ہزار ہزار روپے زرعی ٹیکس ادا کیا۔

یوں 11 افراد پر مشتمل شریف خاندان جو کہ 10 ٹیکسٹائل فیکٹریوں، 4 شوگر ملوں، تین سٹیل ملوں، کئی دوسرے انڈسٹریل یونٹس اور 50 ہزار ایکڑ سے زائد زرعی اراضی کا مالک تھا، اس بے چارے خاندان نے 30 جون 1998 کو کُل ملا کر 60 ہزار کے قریب انکم ٹیکس اور سوا دو لاکھ روپے بطور زرعی ٹیکس کی مد میں ادا کیا۔

اس دوران لندن فلیٹس خریدے جا چکے تھے، پانامہ میں کمپنیاں قائم ہوچکی تھیں اور بیرون ممالک کاروبار میں دن دگنی رات چوگنی ترقی ہورہی تھی۔

11 افراد پر مشتمل شریف خاندان نے 1998 میں 60 ہزار روپے انکم ٹیکس ادا کیا اور آج اس خاندان کا سربراہ میاں نااہل شریف لندن سے واپس پاکستان آیا اور بیان دے ڈالا کہ وہ آئین کے خلاف ہونے والی سازشوں کے خلاف بھرپور جدوجہد کرے گا۔

یہ ہے کردار شریف خاندان کا۔ اگر کسی کو یہ لگتا ہے کہ نوازشریف ملک کی بہتری چاہتا ہے تو یا تو وہ شخص دماغی توازن کھو بیٹھا ہے، یا پھر وہ بھی حرام خوری میں برابر کا حصہ دار ہے۔

تیسری کوئی صورت ممکن نہیں!!!

No comments:

Post a Comment

THANK YOU