بھٹو دور میں نجم سیٹھی کی بلوچستان کے علیحدگی پسند عناصر سے بڑھتی ہوئی پینگوں کی وجہ سے 1975 میں بھٹو نے اسے گرفتار کروا دیا اور پھر ضیا کے مارشل لا کے بعد ہی اسے رہائی ملی۔
رہائی کے بعد نجم سیٹھی نے لاہور سے وین گارڈ نامی اپنا پبلشنگ ادارہ قائم کیا جہاں سے بائیں بازو کے بہت سے دانشوروں کی کتابیں شائع کی گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نجم سیٹھی صحافت میں بھی قدم رکھ چکا تھا اور پڑھا لکھا ہونے کی وجہ سے اس کا حلقہ اثر پاکستان سے باہر تک پھیلنے لگا تھا۔
1984 میں جنرل ضیا کے حکم پر نجم سیٹھی کو ایک مرتبہ پھر گرفتار
- کرلیا گیا اور اس مرتبہ اس پر الزام یہ لگا کہ اس کے پبلشنگ ہاؤس نے کاپی رائٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی ہے۔
نجم سیٹھی کی گرفتاری پر پاکستان کے طول و عرض پر پھیلے میڈیا گروپس اور صحافتی تنظیموں سمیت کسی کو اتنی توفیق بھی نہ ہوئی کہ وہ اس کی گرفتاری پر احجتاج تو دور، مذمت تو درکنار، نجم سیٹھی سے اظہار ہمدردی ہی کرلیں۔ سیٹھی کیلئے وہ بہت مشکل وقت تھا کیونکہ اس کے حق میں کوئی بھی اخباری ادارہ کسی قسم کی مہم چلانے سے انکاری تھا۔
پھر جیل میں بیٹھے ہوئے ایک دن نجم سیٹھی نے فیصلہ کیا کہ اسے اپنا اخبار نکالنا چاہیئے لیکن اگر وہ اپنے نام سے کوئی ادارہ قائم کرنا چاہتا تو ضیا حکومت اس کی درخواست مسترد کردیتی۔ نجم سیٹھی نے اس مقصد کیلئے اپنی بیوی جگنو محسن کو آگے کرنے کا فیصلہ کیا اور اسے ہدایت کی کہ وہ اپنے نام سے لائسنس کیلئے درخواست دے۔
اس وقت کسی بھی نئے اخبار یا رسالے کی اشاعت کے لائسنس کیلئے آپ کو حکمران سے مل کر اس کی دستہ بستہ منظوری لینا پڑتی تھی، جنرل ضیا کا قابل اعتماد روحانی فرزند، نوازشریف پنجاب کا وزیراعلی بن چکا تھا، مزاج سے رنگیلا اور عقل سے پیدل یہ ' چُڈو ' قسم کا وزیراعلی نجم سیٹھی اور جگنو محسن کا ٹارگٹ بنا، چنانچہ ایک دن جگنو محسن اپوائنٹمنٹ لے کر وزیراعلی پنجاب میاں نوازشریف سے ملنے چلی گئی۔
آپ تھوڑی دیر کیلئے 1986 کے نوازشریف کو اپنے تصور میں لائیں، کرپشن کی دولت منہ کو لگ چکی تھی، عمر ابھی 40 سے کم تھی، پڑھائی ایسے کی جیسے گدھے پر کتابیں لاد دی جائیں، کرکٹ کھیلنے کا شوق لیکن صلاحیت ناپید، بولنے کی صلاحیت سے عاری اور خوداعتمادی کی محرومی کا شکار، لیکن ایسے لوگوں کو پڑھی لکھی پراعتماد اور تھوڑی سی غصیلی عورتیں بہت پسند آتی ہیں اور یہی کچھ اس وقت کے نوازشریف کے ساتھ بھی ہوا۔
جگنو محسن اس وقت ینگ تھیں، اعلی تعیلم یافتہ اور خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ پراعتماد طریقے سے مدلل گفتگو کا فن جانتی تھیں۔ نوازشریف سے میٹنگ شروع ہوئی تو اس ٹگے کو کچھ اور تو نہ سوجھا، اس کیلئے اشرفی والے مربوں کے فروٹ کیک اور سموسے وغیرہ چائے کے ساتھ منگوا لئے اور لان میں کرسیاں ڈلوا کر بیٹھ گیا۔
جگنو محسن نے ' دی فرائیڈے ٹائمز ' کی اشاعت کیلئے لائسنس کی منظوری کی درخواست پیش کی۔ نوازشریف نے بظاہر اپنے آپ کو سنجیدہ اور روایتی سخت گیر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے وہ درخواست پڑھے بغیر اپنی ٹیبل پر رکھ دی اور جگنو محسن کو اپنے ہاتھوں سے فروٹ کیک کا پیس پیش کرتے ہوئے خود بھی کھانا شروع ہوگیا۔ اس دوران وہ ڈرتے ڈرتے، نظر بچا کر جگنو محسن کو دیکھ لیتا اور حسرت بھری آہیں بھر کر سموسوں اور فروٹ کیکس پر ٹوٹ پڑتا۔
جگنو محسن نے چائے وغیرہ پینے کے بعد ایک مرتبہ پھر اپنی درخواست کی طرف توجہ دلائی۔ نوازشریف نے پوچھا کہ آپ کا اخبار کس قسم کی خبریں شائع کرے گا اور اس کا تھیم کیا ہوگا؟
جگنو محسن جو اب تک نوازشریف کی رگ رگ سے واقف ہوچکی تھی، اس نے لاپروائی سے جواب دیا:
" میاں صاحب، اس میں ہلکی پھلکی سماجی چِٹ چیٹ ہوا کرے گی جس میں پارٹیوں اور شادیوں وغیرہ کی بہت سی تصویریں شامل ہوا کریں گی، آپ سمجھ رہے ہیں نا کہ میں کیا کہنا چاہ رہی ہوں ؟ " یہ کہتے ہوئے جگنو محسن نے میاں صاحب کا آنکھ ماری اور میاں صاحب نے بوکھلا کر ہاتھ میں پکڑے ہوئے سموسے کو کیک سمجھ کر چائے میں ڈبو دیا۔ غلطی کا احساس ہونے پر شرمندہ ہوئے تو جگنو محسن نے لوہا ( یا لوہار ) گرم دیکھتے ہوئے فیصلہ کن چوٹ لگائی اور کہا:
" گرم سموسہ اور میٹھی چائے - واہ میاں صاحب، اس پر میں خود اپنے اس اخبار میں ایک کالم لکھوں گی ۔ ۔ ۔ ۔ "
لوہار فُل گرم ہوچکا تھا، اس کی سانس دھونکنی کی طرح چلنا شروع ہوچکی تھی، رنگ ٹماٹر کی طرح سرخ اورجذبات میں وہی طوفان جو بیگم کلثوم کو دیکھ کر شادی کے ابتدائی دنوں میں اٹھا کرتا تھا۔
میاں صاحب نے وہیں بیٹھے بیٹھے جگنو محسن کی درخواست منظور کردی۔
جب ' دی فرائیڈے ٹائمز ' کا لائسنس ایشو ہوگیا تو جنرل ضیا کو خبر ہوئی۔ اس نے وزارت اطلاعات سے پوچھا کہ اس کی منظوری کس سے پوچھ کر کی؟
انہوں نے جواب میں نوازشریف کا نام دے دیا اور جنرل ضیا کو ساری واردات کی سمجھ آگئی۔
فرائیڈے ٹائمز کا پہلا شمارہ ایک سال تک شائع نہ ہوسکا۔ جب ضیا کی حادثے میں وفات ہوئی تو پہلا ایڈیشن شائع ہوا۔
یہ واقعہ جگنو محسن اپنے مختصر سے حلقہ احباب کو مزے لے لے کر سنا چکی ہے اور ایک لفظ بھی جھوٹ نہیں۔
آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آج آزادی صحافت کے علمبردادوں نے 1984 میں نجم سیٹھی کو اکیلا چھوڑ دیا تھا، وہ تو اللہ بھلا کرے نوازشریف کی ٹھرک اور بیوقوفی کا، ورنہ نجم سیٹھی آج اپنے وین گارڈ پبلشنگ ہاؤس کے ساتھ تاریخ میں کہیں گم ہوچکا ہوتا!!
No comments:
Post a Comment
THANK YOU